اس کے چہرے سے ان آنکھوں کو ہٹایا نہ گیا
خود کو چڑھتے ہوئے طوفاں سے بچایا نہ گیا
گو ترے آنسو مرے غم کا مداوا ٹھہرے
زخم یہ بھر تو گیا داغ مٹایا نہ گیا
مدتیں بیت گئیں اس سے ملاقات ہوئے
ایک پل بھی وہ مگر دل سے بھلایا نہ گیا
مان جاتا ، نہ ہمیشہ کی جدائی ہوتی
روٹھنے والے کو کیوں ہم سے منایا نہ گیا
اس میں اب بھی ہے ترے نام کی دھڑکن باقی
دل پہ اک نقش بنایا تھا مٹایا نہ گیا
یوں تو تاریکی میں پھیلی تھیں روپہلی کرنیں
دل گریزاں تھا جو پلکوں کو اٹھایا نہ گیا
سانس چلتی ہے نہ رکتی ہے عجب عالم ہے
بات کچھ اور ہے وہ شوخ تو آیا نہ گیا
دعوت حسن تھی اور لب بھی مرے پیاسے تھے
جانے کیوں چھلکا ہوا جام اٹھایا نہ گیا
اپنے حالات سے مجبور تھے دونوں زاہد
فاصلہ بڑھتا گیا ہم سے مٹایا نہ گیا