ُمسافر ہیں اس جہاں میں سب
مہمان بنے میزبان جہاں میں سب
صرف چاہا سے کہاں کچھ حاصل
قلبِ سلیم ملے کہاں پا کے بھی سب
خوشی کیا ہے کاش کوئی سمجھے
دین ہے تسکین جو کوئی سمجھے
خود غرضی کی چادر ُاوھڑے
منفی سوچ ،کیا خوشی کوئی سمجھے
تلاش میں کھوئے بٹھکے پھریں
کس کی، یہ کہاں کوئی سمجھیں
نقلِ حرکت کے ماہر یہ زمانے میں
ُخودی کو چھوڑے کیا خوشی کوئی سمجھیں
افراتفری میں حق اور باطل میں تمیز بھولے
کیوں کیوں ہے اس سوال میں تمیز بھولے
انسان بنا مشین حقیقت اور خیال میں تمیز بھولے
کیا کریں لوگ ڈر میں دل اور دماغ میں تمیز بھولے
تمام تر فیصلے خود کریں نام لگایں ُخدا پہ
سوچ سے ذیادہ ملے ،ہو بھروسہ جو ُخدا پہ
دل سے ِکیا کام ، ہر دل پہ اثر کرے
مانگے دل سے،قدرت بنے ذریعہ تقوا جو خدا پہ
دل کو سکون نہیں اور اور کی تمنا کرے
آسائشیں پوری پھر بھی اور اور کی تمنا کرے
سوال پوچھنا ضروری جو کچھ بھی سمجھنے کی تمنا کرے
ِاسلام نے دی آزادی ُخرم! جو غور و فکر کی تمنا کرے