خوف
Poet: kanwal naveed By: kanwal naveed, karachiگھٹن یہ غضب کی ہے
کچھ کہنا مشکل ہے
بات کرتے کرتے ہم
اکثر رک جاتے ہیں
نہ جانے کوئی کیا سوچے
ہماری ذات میں کیا کھوجے
کہیں کچھ ایسا نہ پا لے
جو ہم چھپانا چاہتے ہیں
کب سے مٹانا چاہتے ہیں
زخم چند رشتوں کے
جو بنا مانگے مل جاتے ہیں
زخم جو ہوں ناسور مگر
ظاہراً سل جاتے ہیں
مرہم سے محروم مگر
دیکھنے میں معدوم مگر
کانچ سے چبھتے ہیں اکثر
روح کو جو بیمار کریں
زندگی کو لاچار کرئی
ہم کچھ کہہ ہی نہیں پاتے
کہ زخموں کو کھرچنے سے
مزید درد ہوتا ہے
درد میں مبتلا ہوتا ہے
جو بھی ہمدرد ہوتا ہے
مگر ہماری خاموشی کو
مگر ہماری خود فراموشی کو
ہمدروں نے غرور سمجھا
ہمیں خود سے دور سمجھا
گٹھن یہ غضب کی ہے
کچھ کہنا مشکل ہے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






