دشت کی مسافت میں
کیسے لوگ ملتے ہیں
زندگی کے گلشن میں
پھول پھول کھلتے ہیں
زندگی بہاروں کو
آئینہ بنا کر کے
اپنے گیسوئے خم دار
زیرِ پشت وا کر کے
اپنے سب خیالوں کو
دلنشیں بناتی ہے
رخ پہ رنگ بکھرا کر
مہ جبیں بناتی ہے
اور پھر مسرت سے
جھوم جھوم جائے دل
اپنی دھن میں کلیوں کو
چوم چوم جائے دل
اور پھر اچانک ہی
لوگ رہ بدل جائیں
نفرتوں کے سانچے میں
اپنے آپ ڈھل جائیں
سوچو اس سمے دل کا
کیسا حال ہوتا ہے
پل ‘ بھری تمنا کا
پائمال ہوتا ہے
پھر خیال آتا ہے
آرزو کے صحرا میں
دل کی ناؤ بہہ جائے
حسرتوں کے دریا میں
اور زندگی یوں ہی
بے ثبات ہو جائے
موت کی نگاھوں کا
التیفات ہو جائے