خیال میرے خواب ِخرگوش
کہتا ہے یہ ہر ذی ہوش
کان میں میرے کوئ کہتا ہے
کُچھ نہ کرنا رہ مدہوش
بابا کہتا نہ کر سُستی
عمل میں آجا اے بے ہوش
نتیجہ اس کا کیا نکلے گا پھر کھو دیے میں نے ہوش
عشق کی کچھ نہ آئ سمجھ
کس کو دوں میں دوش
کہتے ہیں وہ نہ بولو تم
ہو گیا میں خاموش
تیرا کام نہیں نعمان
ہو جاؤ تم روپوش