خیال و فکر میں ندرت ملا گیا ہے کوئی
مجھے غزل کا سلیقہ سیکھا گیا ہے کوئی
سجا گیا ہے کوئی پھول قریہ جاں میں
دیار دل میں ستارے کھلا گیا ہے کوئی
گزر رہے تھے شب و روز بے حسوں کیطرح
نئی طرح کی امنگیں جگا گیا ہے کوئی
شریک بزم سبھی دم بخود سے ہیں راشد
فضائے بزم پہ آتے ہی چھا گیا ہے کوئی