خیال یار سے چھوٹی نہ جستجو اب تک
ھر طرف وہی ھے موضوع گفتگواب تک
اسی کی یاد سے معطر ھے ھوائے چمن
اسی کی بدولت ھے روح سرخرو اب تک
اسکی یادوں کے شبستاں سے رہائی نہ ملی
اسکے خوابوں کوسجا رکھا ھے چارسو ابتک
سلگ رھی ھیں چنگاریاں وفا کی اب بھی
نشتر ناوک سے ھے جگر لہو لہو اب تک
خواہشوں پر پڑتی رہی یاسیت کی اوس
پھربھی نہ ھوا جگر ان سے رفو اب تک
اسکی نازک مزاجی کے چرچے ھیں گلستانوں میں
بھرا ھوا ھے اس کے لیئے مدح کا سبو اب تک
کیا مزاجوں سے شناسائی بھی اک ھنر ھے حسن
نہ جانے کیوں نہ سمجھ سکا میرا مزاج تو اب تک