جن پہ اُمیدوں کا دارُمدار تھا
وہ لوگ جھُوٹے نکلے، جھُوٹا اُن کا پیار تھا
ہم غیروں سے کیا اپنوں سے لُٹ گئے
پِیٹ پہ وار پڑا سینے سے پار تھا
اُنہیں لوگوں نے زباں سے زخم دیئے
جن کی باتوں سے دل کو قرار تھا
خُوشیاں بھی بانٹنے آئے تو کس انداز میں
پھولوں کی جگہ ہاتھ میں کانٹوں کا ہار تھا