درد مفلس کہاں لفطوں میں بیاں ہوتا ہے
چہرہ ہی آئینہء کرب نہاں ہوتا ہے
تو نہیں ، پر تری یادوں کے ہیں سائے دل پر
مجھ کو ہر پل ترے ہونے کا گماں ہوتا ہے
اب وہ جھرنے تو نہیں بہتے مری آنکھوں سے
اشک بن کر ترا غم پھر بھی رواں ہوتا ہے
عشق کرنے کی حماقت نہیں کرنا کوئ
اس کا انجام فقط آہ و فغاں ہوتا ہے
پتھرو راہ کے ، دیکھو نہ حقارت ے مجھے
ٹھوکریں کھا کے مرا عزم جواں ہوتا ہے
باپ کے حکم سے بن باس بھی لے لیتا تھا
آجکل ایسا کوئ بیتا کہان ہوتا ہے
لاکھ غافل ہو ‘ حسن ‘ آج مسلماں کا ضمیر
اب بھی بیدار بہ آواز اذآں ہعتا ہے