درد کیا ہوتا ہے
بتائیں گے کسی روز
کمال کی غزل تم کو
سنائیں گے کسی روز
تھی ان کی ضد کہ
میں جاؤں ان کو منانے
مجھ کو یہ وہم تھا کہ
وە بلائیں گے کسی روز
کبھی بھی میں نے تو
یہ سوچا بھی نہیں تھا
وە اتنا میرے دل کو
دکھائیں گے کسی روز
ہر روز آئینے سے یہ
پوچھتی ہوں میں
کیا رخ پہ تبسم ہم
سجائیں گے کسی روز
اڑنے دو پرندوں کو
آزاد فضاؤں میں تم
تمہارے ہوں گے اگر تو
لوٹ آئیں گے کسی روز
اپنے ستم کا دکھ لینا
خود ہی ساقی تم
زخم اے جگر تمہیں
دیکھائیں گے کسی روز