درد ہو کیوں نہ دل اگر رکھیے
تیر کھائیں گے گر جگر رکھیے
ہم کہ خانہ بدوش ہی کب تک
اس زمیں پر کہیں تو گھر رکھیے
منزل عشق پھر کہاں مشکل
استواری کو ہمسفر رکھیے
بس خدا کا ہی نام یاد رہے
خواہشوں کو نہ دل میں بھر رکھیے
عاشقی میں شہید کا رتبہ
بس ہتھیلی پہ اپنا سر رکھیے
خیر اوروں کے واسطے ہو سدا
دل ہی وہ کیا ہے جس میں شر رکھیے
اس پری وش کا ذکر ہو ان میں
اپنے شعروں میں یوں اثر رکھیے
خوف دنیا نکال کر دل سے
بس خدا کا ہی اس میں ڈر رکھیے
خود کو طوفاں میں آزمائیں ذرا
ساحلوں کا ہی نہ سفر رکھیے
ہے خموشی میں عافیت زاہد
اس طرح خود کو معتبر رکھیے