درد ہے میری غزل کے ہر اک شعر میں
وفا ملتی نہیں کسی مول بھی ان کے شہر میں
شکوہ کیا کریں ہم تاروں سے تیری بےوفائی کا
وہ تو خود کھو چکے ہیں سحر میں
میرا غم جان کر تو پتھر بھی رو دئیے
دکھ کا شائبہ نہ تھا ذرا بھی ان کی نظر میں
ہمیشہ سے عشق کا دستور ہے یہ تو
کانٹے ملے کسی کو کسی کو پھول ملے ہجر میں
دو گھونٹ پی ہی لیتے ہم بھی واجد
لیکن وہ پہلی سی بات نہیں ہے زہر میں