دردِ تنہائی نے مدت سے جگا رکھا ہے
خانہءِ دل کو صرف تجھہ کو بسا رکھا ہے
شہر میں لوگ میرے حال پہ ہستے کیوں ہے؟
میں نے آنسوں کو تو خود سے بھی چھپا رکھا ہے
میرے الفاظ کی سج دھج بھی تیرے نام سے ہے
میرے جذبوں نے تجھے مثلِ دعا رکھا ہے
لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں نے دہائی دی ہے
میری سانسوں نے تجھے مجھہ میں بسا رکھا ہے
میں نے دیکھا ہے تیری آنکھہ میں پلتا جذبہ
خواہ مخواہ تو نے کیوں اک خول چڑھا رکھا ہے؟
عشق نے مجھہ کو کہیں کا بھی نہ چھوڑا ہے مگر
اس کو کرنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
مجھہ کو کیا مرضِ مسلسل کی دوا دیتے ہو ؟
جب کہ نظروں کو تیری میں نے شفا رکھا ہے
میں تو ٹہرا تھا مسافر خرد کی منزل کا
کب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
میں بھی ہو جائو گا اک روز نمازی واعظ!
رو برو آئینہ میرے کیوں دھرا رکھا ہے؟
عکسِ احسن ہے یہی غزل میں دیکھو اس کو
اس نے ملنے کا یہ انداز ِ جدا رکھا ہے