درودیوار سجائے ہیں تیرے واسطے
کتنے ہی آنسو گرائے ہیں تیرے واسطے
بھری دنیا میں تنہا خود کو کر ڈالا
سبھی لوگ بھلائے ہیں تیرے واسطے
لمحاتِ زندگی تو کب سے ختم کر دئیے
صبح و شام نبھائے ہیں تیرے واسطے
دیتے تو رنجش ہیں تیرے خطوط مگر
سینے سے چپکائے ہیں تیرے واسطے
محبت کی صحبت بھی بُری لگتی تھی
اِس حصار میں آئے ہیں تیرے واسطے
ستم پہ ستم دل معصوم پر جاری ہے
چراغِ اندوہ جلائے ہیں تیرے واسطے
رہتے تو نامکمل ہیں سدا سپنے میرے
یہ پلکوں پہ بٹھائے ہیں تیرے واسطے
نامِ کنارہ نہ کروں کہیں تجھ سے کبھی
اُمید کے پل بڑھائے ہیں تیرے واسطے