پھرتا ہے مارا مارا وہ ہر پل اداس ہے
اک شخص سر سے پاؤں تلک “ دیوداس “ ہے
ہر سو چمن میں جشن بہاراں ہے دیکھیے
یہ پھول اس نشاط میں بھی محو یاس ہے
اے دوست ! اپنے سائے کو بھی ڈھونڈتا ہوں میں
آ جا کے تیری یاد ہی تو میرے پاس ہے
صحرا سے بھاگ آیا ہوں تشنہ لبی لیے
دریا کے پاس آ کے بھی شدت کی پیاس ہے
تجدید دوستی کے لیے تو نہ آئے گا
پھر بھی ہے انتظار مجھے تیری آس ہے
رنگیں بہار چھوڑ کے پہنچا ہوں اس جگہ
سارے شجر اداس ہیں اور سوکھی گھاس ہے
خانہ بدوش ! زیست تری ہے کڑی سزا
غم کھانا ، آنسو پینا و غم ہی لباس ہے
زاہد قلندری کے بھی آداب سیکھ لے
اسلام سے کہاں تو ابھی روشناس ہے