دریائے غم روانی سے اوپر چلا گیا
صحرائے درد پانی سے اوپر چلا گیا
بے بس ادیب اپنا سا منہ لے کے رہ گیا
کردار تو کہانی سے اوپر چلا گیا
تاثیر دیکھی لہجہ ء اخلاص کی عجیب
مفہوم بھی معانی سے اوپر چلا گیا
محسوس ہو رہی بدن میں اب اسکی روح
جو خواب خوش گمانی سے اوپر چلا گیا
دل جیتنے کو راہوں سے کانٹے اٹھائے تھے
یہ کیف حکمرانی سے اوپر چلا گیا
عاشی جو حرف نکلا کبھی کُنجِ قلب سے
وہ قیدِ لامکانی سے اوپر چلا گیا