حیراں ہو کہ یہ کون سا دستور وفا ہے
تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے خفا ہے
تو اہل نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر کیوں؟
پہلو میں تیرے کوئی زمانے سے کھڑا ہے
لکھا ہے میرا نام سمندر پر ہوا پر
اور دونوں کی فطرت میں سکوں ہے نہ وفا ہے
شکوا نہیں مجھ کو کہ ہوں محروم تمنا
غم ہے فقط اتنا کہ تو دیکھ رہا ہے