دسمبر آگیا
لیکن سنو
تم پھر نہیں آئے
جو وعدے تم نے
کرنے تھے وہ پورے
تم نہ کر پائے
سجائے تھیں
سنواری تھیں
تمہاری خاطر
جو راہیں
انھی راہوں پہ
چلنے تم
سنو جاناں
نہیں آئے
دسمبر آگیا
لیکن سنو
تم پھر نہیں آئے
جلایا تھا
جنہیں ہم نے
بڑی آسوں
امیدوں سے
دئے چاہت کے
آنکھوں میں
نہیں تم پھر
سجا پائے
دسمبر آگیا
لیکن سنو
تم پھر نہیں آئے
تمہارے بن
گزاریں گے
سبھی دن اور
سبھی شامیں
تمہاری یادوں سے تنہا
کریں گے پہروں ہم باتیں
خیالوں میں بلا کے ہم
بتائیں گے تمہیں جاناں
تمہاری یاد کی
خوشبو سے
ہم نے کاغذ پہ
لفظوں کے
کتنے پھول مہکائے
دسمبر آگیا
لیکن سنو
تم پھر نہیں آئے
دسمبر آگیا
لیکن سنو
تم پھر نہیں آئے
جو وعدے تم نے
کرنے تھے وہ پورے
تم نہ کر پائے