دل بجھ سا جاتا ہے دلدار کے بعد
میرا کچھ نہیں بچا میرے یار کے بعد
محبت کے پنجرے میں ہو قید بس عورت
مرد آزاد ہو جاتے ہیں اظہار کے بعد
مر کے بھی ہوتا ہے زمانے میں موجود
فن زندہ رہتا ہے فنکار کے بعد
حسین چہروں سے نفرت سی ہو گئی مجھ کو
کوئی اچھا نہیں لگتا تیرے دیدار کے بعد
اے عشق ! تجھے قتل کر کے چھوڑوں گا
تو بچ نہیں سکتا میرے وار کے بعد
ابھی پہلی بار ہے دقت تو ہو گی
عشق سمجھ آتا ہے، دو چار کے بعد
فرخ اس کہانی میں پرندہ تو بچ گیا
شکاری مر گیا تھا شکار کے بعد