دل بے چارہ پریشان رہا ہمیشہ
آج ہی کا مہمان رہا ہمیشہ
لاکھوں آ رزوئیں رکھ کے بھی
بالکل بے سروسامان رہا ہمیشہ
گُل بُوٹے کِھلا کِھلا کے بھی
ہر وقت ویران رہا ہمیشہ
ہم جہاں جہاں سے بھی گزرے
سامنے اِک امتحان رہا ہمیشہ
گھٹاؤں میں گِھرے ہیں ہم
منہ زور طوفان رہا ہمیشہ
زخم بھر بھی گئے اگر
زخموں کا نشان رہا ہمیشہ
چاہت نہ ملی کبھی ہمیں
چاہت کا ارمان رہا ہمیشہ
مستقبل میں آ کے بھی سدا
ماضی پہ دھیان رہا ہمیشہ
جی جی کے مرتا ہی رہا یہ
سینہ میرا بے جان رہا ہمیشہ