میری وحشت کو پھر جگانے لگے
غم زمانے کے یاد آنے لگے
کتنے سنگین واقعات ہوئے
چھوڑ کر شہر لوگ جانے لگے
مرض مٹ جائے گا مریض کے ساتھ
چارہ گر زہر جب پلانے لگے
ہجر بن جائیں نہ ملاقاتیں
اس قدر ہم قریب آنے لگے
رویت چاند کا ہوا دھوکا
رخ سے آنچل وہ جب ہٹانے لگے
ہم فریبوں کے ہو چکے عا دی
دے کے پھرخود فریب کھانے لگے
اپنا چہرہ ہے مشتہر ہی بہت
غم چھپانے کو مسکرانے لگے
ساری محفل ہے پتھروںسے سجی
آئینہ ہم کسے دکھانے لگے ؟
ہر نئی چیز دل کو بھاتی ہے
دوست اچھے مگر پرانے لگے
بادشاہوں نے جو بھی لکھوائے
ہم کو قصے وہ سب فسانے لگے
جو تھیں مشرق کی شاندار بہت
ہم روایات وہ مٹانے لگے
بستیاں ان غریب لوگوں کی
حاکم وقت پھر گرانے لگے
ایڈیسن ! دیکھو روشنی کے لیے
ہم تو پھر سے دیے جلا نے لگے
دیکھنا پھر کمال فن زاہد
دل لگا کر جو چوٹ کھانے لگے