دل میرا اگر رفتہ رفتہ مانوسِ ستم ہوجاتا ہے
یہ حسن جفا دیکھو اس کا مائل بہ کرم ہوجاتا ہے
ہم اُن سے شکایت کیا کرتے روداد شبِ غم کیا کہتے
آتے ہی زباں تک شکرِ کرم ہر شکوئہ غم ہوجاتا ہے
اللہ رے دل بیداد پسند اس درجہ ستم کا خوگر ہے
ہوتا ہے فسردہ جب کوئی مائل بہ کرم ہوجاتا ہے
تم ہو کہ ہے اپنوں پر بھی ستم میں ہوں کہ ہے میرا یہ عالم
دشمن پہ بھی ہو بیداد اگر دل وقفِ الم ہوجاتا ہے
جب وجہِ سکونِ دل ہے یہی اخترؔ تو مداویٰ کیا معنی
دل اور تڑپنے لگتا ہے کچھ درد جو کم ہوجاتا ہے