زحمتوں کے طوفان ہیں باقی
اور ہم خوش گمان ہیں باقی
غم زمانے کے ہم نے سہہ تو لیے
عشق کے امتحان ہیں باقی
دوست ہی دشمنی نبھاتے ہیں
ایسے بھی مہربان ہیں باقی
آندھیاں جھونپڑے اڑاتی رہیں
اونچے شاہی ایوان ہیں باقی
پیٹی والے تو ڈر کے بھاگ گئے
چوک میں ملزمان ہیں باقی
لوگ لاکھوں وطن میں مارے گئے
نااہل حکمران ہیں باقی
بجلیو ! میرے ہی چمن پہ نظر ؟
اور بھی گلستان ہیں باقی
زلزلے تھم نہیں رہے ، شاید
چند کچے مکان ہیں باقی
نوکری سے گیا وہ فرض شناس
راشی اور بے ایمان ہیں باقی
پڑھ کے لاحول اک بھگا تو دیا
نفس میں سو شیطان ہیں باقی
کچھ تو باقی ہے آج ذوق سخن
کچھ تو اہل زبان ہیں باقی
مجھ کو ناکامیوں کا خوف نہیں
دل میں جذبے جوان ہیں باقی
جو لگائے تھے تو نے گھاؤ مجھے
بھر گئے پر نشان ہیں باقی