دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
ان کی خوشبو، کہاں سے آتی ہے
حد اوہام سے گزر کے کھلا
کوش یقینی ، گماں سے آتی ہے
جرات بندگی ء رب جلیل
بت شکن کی اذاں سے آتی ہے
ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر
دل میں عزم جواں سے آتی ہے
ان کی آواز میرے کانوں میں
آ رہی ہے ، جہاں سے آتی ہے
سر کو توفیق سجدہ کرنے کی
یار کے آستاں سے آتی ہے
آدمیت وہاں نہیں ہوتی
کبر کی بو جہاں سے آتی ہے
وقت کیسا قیامتی ہے آج
دھوپ اب سائباں سے آتی ہے
رات پڑتے ہی کچھ نہیں کھلتا
یاد جاناں کہاں سے آتی ہے
آدمی میں جمالیاتی حس
قربت مہ وشاں سے آتی ہے
دو قدم چل کے تم نہیں آتے
چاندنی آسماں سے آتی ہے
زندگی میں نصیر ! آسانی
ترک سود و زیاں سے آتی ہے
یاد فن کے اساتذہ کی نصیر
تیرے طرز بیاں سے آتی ہے