منزل تو سامنے ہے ساتھ ہم سفر نہیں
روک لے قدم یہ تیری ڈگر نہیں
بھٹکا ہوا مسافر صحرا کا راہی ہوں
منزل کے راستوں کی کوئی خبر نہیں
ہر لحد کا نشان کہیں ایسے کھو گیا
جیسے بنی اس شہر میں کوئی قبر نہیں
دل کی گلیاں کیوں ویران ہو چکی ہیں
آباد کیوں پہلے سا یہ شہر اب نہیں
عظمٰی تو ابھی سے کیوں بےچین ہوگئی
کم ہو گئی ہمت تیری تجھ میں صبر نہیں