دل کے زخموں کو دھاگے میں پرویا بھی تو جا سکتا تھا
زندگی کے سفر میں سب کچھ کھویا بھی تو جا سکتا تھا
لوگوں کے سامنے غم بیاں کرنے سے بہتر تھا ؟؟
چادر غم کو اوڑھ کہ سویا بھی تو جا سکتا تھا
آنکھوں میں نئے خواب سجانا کوئی ضروری تو نہیں تھا ؟
پرانے آنسوؤں سے آنکھ کو بھگویا بھی جا سکتا تھا
دریا کی گہرائی سے گبھرانے والے ملاح
کاغذ کی کشتی پہ پار ہویا بھی جا سکتا تھا
تھمارا یوں ضبط کرنا آخر جان لے بیٹھا نہ " طاہر
کسی دیوار سے لگ کے رویا بھی جا سکتا تھا