دن سے رات نکالی جائے
بات سے بات نکالی جائے
آنکھوں میں پوشیدہ موتی
یہ سوغات نکالی جائے
قصہ جھوٹا ہے تو اس سے
میری ذات نکالی جائے
کچے گھڑے ہیں اس گاؤں سے
اب برسات نکالی جائے
بدنامی کے اس قصے سے
اپنی ذات نکالی جائے
رات کی تاریکی میں اک دن
اک بارات نکالی جائے
فن سے حرص کی ناگن جو ہے
وہ کم ذات نکالی جائے
کوئی جیتے سلمی رانی
کھیل سے مات نکالی جائے