دنیا اچھوں سے ہوگیا خالی
Poet: purki By: M.Hassan, Karachiیہ دہشت گردی ہے یا وحشت گردی
فرق کون سمجھائے گا ان نادانوں کو
ہم جنونی گروہوں میں بٹ چکے ہیں
مان لو یا نہ مانو تم اس تلخ حقیقت کو
نام اسلام کا لیتے ہیں سب ہی لوگ
کام مگراسلامی دکھائی نہ دے ہم کو
حق و انصاف صبراور سچ کی تعلیم
کسی بھی تنظیم میں نظر نہ آئے ہم کو
جو اللہ،پیغمبراورقرآن کی ماننے کا داعی ہو
وہ جائز کیسے سمجھے گاکسی فتنہ وفساد کو
اک انسان کا قتل پوری انسانیت کا ہے قتل
کوئی کیسے فراموش کرے اس محکم آیت کو
اس سے بڑھ کر لا اکراہَ فی الدّین کی آیت
کیا یہ کافی نہیں ہے بھٹکے ہوئے انسانوں کو
ہر کسی نے قبر میں اپنا ہی حساب دینا ہے
سوچو سمجھواور درست کرو اپنے اعمالوں کو
وہاں کوئی کسی کا ہمدم اور غم گسار نہیں ہوگا
رہو تیار اپنے کئے دھرے کی سزا بُھگتنے کو
شفاعت کی امید میں جرم مت کئے جاؤ
اللہ کیونکر بخشے گا پکّے مجرموں کو
اللہ اور رسول کی شفاعت صرف انکو ملے گی
جودل سے قبول کرے اللہ رسول کے فرمانوں کو
وہ جہالت کی موت مرا جوکسی تعصّب کو لے مرا
دل سے فراموش کرے جو اس حدیث رسول کو
پیار و محبت ایثار و وفا کے پیکر تھے وہ لوگ
خود کو لُٹا کے کربلاء آباد کیا اسلام بچانے کو
ایسے کردارکہاں ہیں ہم میں ذرا مجھ کو بتادو
نام ان کا بہت لیتے ہیں مگرصرف دن منانے کو
فرقہ پرستی کی دکانیں کب بند ہونگےمیرے خدایا
ہمیں سُدھارنےکیلئے جلد بھیجدےاُس ہستی کو
مُسلم ہیں بے منظّم جبکہ ہنود ویہود منظّم
عقل و شعور بخشے دنیا کے مسلمانوں کو
اتّحاد و اخوّت ہی اصل اسلام کی روح ہے
اس عمل کے لئےواجب کیا گیا عبادات کو
نماز روزہ حچ زکات اک مشق مسلسل کیوں
کاش سمجھے تو سہی کوئی روح اسلام کو
اسلام کا مطلب ہے امن و سلامتی
ہم ترس رہے ہیں ہر جا اسی کو
کوئی عالِم نہیں زمانے میں
روک دے جو ان ظالموں کو
دنیا اچھوں سے ہوگیا خالی
رہ گئے باقی سب لڑانے کو
یہ فسانہ بہت پُرانا ہے
بھول جاؤ تم بھی اس فسانے کو
ابن آدم بسا ہے جب سے دنیا میں
نسل شیطان بھی آگئے لڑانے کو
خود سدھرنے کا نام تک نہیں لیتا
ہرکوئی جھاڑ دیتا ہے اوروں کو
اُس کی مرضی بِنا پتّہ بھی نہیں ہلتا
کوئی کیسے رد کرے خدا کی مرضی کو
کوئی ڈھنگ کاحکمراں میں کہاں سے لاؤں
کوستے ہیں صبح و شام لوگ اب شریفوں کو
ہماری قسمت میں نواز اور زرداری کے سوا
کوئی اور ہے ہی نہیں امن و امان بگاڑنے کو
آؤ سب مل کر یہ دعا کریں یا رب
کوئی امین حکمراں دے پاکستان کو
جو بھی آتا ہے ہماری کھال اتارتا ہے
صبح و شام قیمتوں کو پر لگ جاتا ہے
عوام جلسوں میں ان پہ نہ برسائے
اسی لئے مہنگا کیا ہے ٹماٹروں کو
اب تو انڈے بھی مار نہیں سکتا
کیسے باہر نکالے اپنےغصّوں کو
اب تو آنسو بھی خشک ہوگئے اپنے
اپنے درد کو چھپالو اپنے آہوں میں
یہ سلسلہ یونہی چلے گا جب تک
اسرافیل نہ آئے سُور پھونکنے کو
میری دنیا کے ظلم و ستم مٹانے کیلئے
کوئی خمینی آئے یا رب صبح یا شام کو
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






