زے نصیب یہ آئے شبد
ہس کے گزار جیون کی حد
اعمال زندگی نہ ہونے کہ برابر
ساتھ لے کہ جا دعاؤں کا وفد
جس راہ پے لے نکلے. صنم
کر لیا جان نے دل کا قصد
ہے ستم جان پے کرتی رضا
متواتر جان اسے رد
کائینات جمال یار کی نہ پوچھ
لگ گئی جلوں کو نظر بد
زیست ڈھکے رازو کا تھا. وہ
کھا گیا جسے دنیا کا حسد