دنیا کو تو حالات سے امید بڑی تھی
پر چاہنے والوں کو جدایی کی پڑی تھی
کس جان گلستاں سے یہ ملنے کی گھڑی تھی
خوشبو میں نہائی ہوئی اک شام کھڑی تھی
میں اس سے ملی تھی کہ خود اپنے سے ملی تھی
وہ جیسے مری ذات کی گم گشتہ کڑی تھی
یوں دیکھنا اس کو کہ کویی اور نہ دیکھے
انعام تو اچھا تھا مگر شرط کڑی تھی
کم مایہ تو ہم تھے مگر احساس نہیں تھا
آمد تری اس گھر کے مقدر سے بڑی تھی
میں ڈھال لیے سمت عدو دیکھ رہی تھی
پلٹی تو مری پشت پہ تلوار گڑی تھی