دنیا کے سِتم یاد، نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
مَیں شکوہ بلب تھا، مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کے میرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمہ بےساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانیے، کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مدت ہوئی اِک حادثہ عشق کو، لیکن
اب تک ہے تیرے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
ہاں ہاں تجھے کیا کام میری شدتِ غم سے؟
ہاں ہاں، نہیں مجھ کو تیرے دامن کی ہوا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تیری لغزشِ پا یاد؟
کیا لطف کہ مَیں اپنا پتا آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بُھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد