طلب بڑھ جائے تو مطلوب دور ہو جائے
کہیں دل سے تیری طلب نہ دور ہو جائے
تمہارے سامنے رہیں تو میری نظروں سے
کوئی منظر ہو کوئی رت ہو دور ہو جائے
جس کا مسکن ہمارے دل کے سوا کوئی نہیں
میری نظر سے کس لئے وہ دور ہو جائے
میری نگاہ میں اجالوں کو سجایا جس نے
دل کی تاریکی اس کے دم سے دور ہو جائے
تیری چاہت کی خوشی پا کے یہ محسوس ہوا
میرا دامن ہر ایک غم سے دور ہو جائے
تیری آنکھوں کے سمندر میں ڈوب جانے سے
کسی نظر سے دل سے پیاس دور ہو جائے
عظمٰی خیال خام ہے یہ سوچ لینا بھی
تیرا خیال میرے دل سے دور ہو جائے