دَر حمیّت میں اُس سے مِلا ہوں بہت
دَر حقیقت میں اُس سے سِوا ہوں بہت
’’ صنفِ نازک پہیلی ‘‘ نہیں حل ہوئی
میں سنا ہوں بہت ، میں پڑھا ہوں بہت
کامیابی وراثت نہیں ہے مری
ہر قدم مشکلوں سے لَڑھا ہوں بہت
اے قمر ! تیرے چہرے بہت ہیں مگر
میں فلک ہوں تجھے جانتا ہوں بہت
اک زمانہ ہوا ہم ملے ہی نہیں
دوستوں سے مرے میں خفا ہوں بہت
ہر منافق رہے دور مجھ سے بہت
دشمنوں سے مرے آشنا ہوں بہت
لذّتیں مل گئیں ہر گنہ میں بہت
کیا سزا ہے مری سوچتا ہوں بہت
اے الہی بچا لے پکڑ سے تری
خوف کھاتا ہوں میں ، کانپتا ہوں بہت
تم بتا دو خطا کیا ہے نادرؔ مری
خود میں اپنی خطا بھولتا ہوں بہت