خزاں سارے رنگ اپنے جب دکھانے لگی مجھے
تباہی بھی ہنر اپنے سب دکھانے لگی مجھے
ہم نے تو بس محبت کا ثبوت ہی مانگا تھا ان سے
وہ تو اپنا تمام حسب نسب دکھانے لگی مجھے
سب کچھ لٹا کے منزل آنے لگی نظر تو وہ
راستہ واپسی کا بے سبب دکھانے لگی مجھے
کہکشائیں لیکر گیا تھا سجانے انکے درپر اور وہ
سحر نہ ہو جسکی وہ شب دکھانے لگی مجھے
اپنی غربت پہ شرمندہ بہت ہوا میں جب وہ
اپنے احباب کے بلند منسب دکھانے لگی مجھے
غیروں سے تو خیر توقع ہی نہ تھی خیر کی
دوستی بھی انو کھے ڈھب دکھانے لگی مجھے
سا نحات ہی رہ گئے ہیں قسمت میں شاید میری
زندگی کچھ عجیب کرتب دکھانے لگی مجھے