دھندلا گیا ہے اب تو وہ چہرہ بھی
جو کبھی میرے دل پر نقش تھا
اتنی سندر تو کبھی برکھا رت نہ تھی
بارش کی ہر بوند میں تیرا عکس تھا
دامن میرا خالی ہے تو کیا دوش زمانے کا
یہ ازل سے لکھا ہوا میرا بخت تھا
کتنا پر رونق تھا خوابوں کا نگر میرا
آنکھ کھلی تو میرے گرد تنہائی کا دشت تھا
میں تو سمجھا تھا مہرو وفا کا پیکر ہے وہ
مگر وہ تو میری سوچ سے بلکل برعکس تھا