آگئے ہیں دھوپ میں سائبان سے نکل کر
ڈوبی ہے کشتی میری طوفان سے نکل کر
میری غلطی ہے یا مرضی ہے یہ میرے رب کی
تعاوان میں پھنسا ہوں تعاوان سے نکل کر
تیرے بس کا روگ ہے نہ میرے اختیار میں
کہ تیر جا چکا ہے کمان سے نکل کر
دیکھو تماشا دوستو مناؤ خوشیاں دشمنوں
کہ آگیا ہوں میں تیرے جہان سے نکل کر
جا بہ جا انگشت نمائی کرتے ہیں بدحال لوگ
مشکل میں پڑتے ہیں آسان سے نکل کر
تیرا ہوگا نہ ہوا کوئی یار کاشف سلطان کا
جا کہیں بس دور جا کلان سے نکل کر