دھوپ کا منظر اکثر خوشگوار لگتا ہے
اور کبھی سہانا سفر سوگوار لگتا ہے
دِل کا حالت کا اثر مسموں پہ ہوتا ہے
آپ نے دیکھا موسم خزاں پر بہار لگتا ہے
دِل کا دامن صدموں سے دور رہنا چاہئیے
غم میرے گلے سے کیوں بار بار لگتا ہے
آپ کی نگاہوں میں دور۔ ہجر کم ہو گا
اور مجھے تو یہ عرصہ بےشمار لگتا ہے
آپ سے ہمیں کوئی کیسے چھین سکتا ہے
کِس میں ایسی جراءت کا اختیار لگتا ہے
آسماں کی وسعت میں راز ہیں نہاں کتنے
فاصلے سے دیکھیں تو بس غبار لگتا ہے
پہلے چل کر دیکھئیے بعد میں بتائیے
کِس قدر دشوار یہ راہگزار لگتا ہے
اے ستم شعار میرے روبرو نہ آیا کر
تیرِِ نیم کش تیرا، دِل کے پار لگتا ہے
بےوجہ کے جھگڑوں کو پالنے سے کیا حاصل
اِن عداوتوں کا سیدھا دِل پہ وار لگتا ہے
پہلے جیب پر نظر بعد میں اقرار ان کا
دل سے دل کا سودا بھی کاروبار لگتا ہے
جو محض اللہ کے راستوں پہ چلتا ہے
خوبرو بہت ایسا شاہ سوار لگتا ہے
زندگی کا پیمانہ یوں چھلکتا جائے ہے
جیسے زیست پہ طاری ہو خمار لگتا ہے
عظمٰی جو تمہیں تم سے زیادہ جان لیتا ہے
کِس کی ذات پر ایسا اعتبار لگتا ہے