جینے کی اک ادا ملی تیرے خطاب سے
ذہنوں کے تالے کھل گئے تیرے جواب سے
تیری وفاء کا جام پیا جس نے ایک بار
تا عمر وہ نشے میں رہا اس شراب سے
منزل پہ ہم کو لے کے چلا اعتماد سے
ہم تو بہل رہے تھے وگرنہ سراب سے
یکجاء کیا ہمیں یہاں قوت عطا کرئی
ورنہ گزر رہے تھے مسلسل عذاب سے
غفلت کی نیند طاری تھی ہم پہ بھی یاں مگر
آکر ہمیں جگایا ہے چھوٹے خواب سے
ناحق لہو بہا کے بھی جنت کا ہے گماں
ڈرتے نہیں خدا سے نہ یوم حساب سے
فکر رساء نے بخشا سیاست کو اک سکوں
ورنہ اٹی ہوئی تھی یہ نفرت کے باب سے
تو نے دیا ہے خدمت و برداشت کا چلن
تو نے مٹایا ظلم و تشدد نصاب سے
باطل کی پول کھولی ہے قائد نے ہی اشہر
باطل کو کھنچ لائے ہیں باہر نقاب سے