جوتی نہیں ھے پاؤں میں اور انگاروں کا سفر
بن وسیلے کے تو دیکھو موت کے یاروں کا سفر
چند سکوں کے عوض آدم کا بیٹا دیکھ تو
کرتا ہے بم گولیوں اور آگ کے دھاروں کا سفر
اپنی مٹی بیچ کر بھی ہاتھ کیا آتا ہے پھر
خطرہ ہر سو ہر طرف وحشت ہی اورخاروں کا سفر
کچھ نہیں معلوم ان کو کیا ہے دنیا کیا حیات
ان کو سکھلایا گیا بس موت کے غاروں کا سفر
ہیں ہزاروں ہی جواں اس قوم کے مارے گئے
کیسی کالی رات ھے بس کوچ ہے ساروں کا سفر
کتنا اچھا کھیل جاری موت کا ہے زیست سے
یاں پہ اپنوں کی قضا اور واں پہ اغیاروں کا سفر
آ کے اب سالار تو کیا ان پہ لکھے گا نطم
بے خلیق و بے مروت اور بیماروں کا سفر