دیار دل میں عقیدتوں کا دھمال کر دوں اگر کہو تو
اداس رت کے تمام لمحے زوال کر دوں اگر کہو تو
بہت اندھیرا ہے جاں کدے میں، جلی بجھی بصارتیں ہیں
نظر اٹھا کر وفا کی شمعیں اجال کر دوں اگر کہو تو
ہجر کی آندھی سے لڑتے لڑتے بہت بیمار لگ رہے ہو
تمہارے چہرے کی زرد رنگت گلال کر دوں اگر کہو تو
تمہاری چاہت کی رہگزر سے میں فاصلوں کو سمیٹ لاؤں
وفا کے سارے ہی سلسلوں کو بحال کر دوں اگر کہو تو
میں زندگی کی تمام خوشیاں تمہاری جانب کو موڑ ڈالوں
مچلتی سانسوں کو خوشبوؤں سے نہال کر دوں اگر کہو تو
تمہارے لہجے کی بے بسی میں جو چیرے جھلک رہے ہیں
میں انکی سانسوں کو قید کر کے نڈھال کر دوں اگر کہو تو
یہ سارے دعوے عجیب لیکن ہمارا حتی الیقیں ہے سدرہ
جنوں کی شدت میں ڈوب کر یہ کمال کر دوں اگر کہو تو