ہر کام میں دخل یہاں دینا ضرور ہے
جلتی پہ آ کے تیل چھڑکنا ضرور ہے
لینے کے مرحلے میں صف اولیں میں سب
دینے کا مرحلہ ہو تو ٹلنا ضرور ہے
دعوے بلند بانگ ہواؤں میں ہے محل
وعدہ وفاء کا کر کے مکرنا ضرور ہے
چہرہ یہ نامراد ہوا تیرے عشق میں
اب کالکِ وفاء کا بھی مَلنا ضرور ہے
حالات کے ستم نے بدل ڈالے خدوخال
اک نام ہی بچا جو بدلنا ضرور ہے
فاقہ کشی نے توڑ دیئے صبر کے جو بند
بچوں نے بھوک سے تو مچلنا ضرور ہے
سینہ کشادہ دیکھ کر سب ہی نے رخ کیا
اس نے بھی آکے مونگ یاں دلنا ضرور ہے
مکرو فریب جس کا فقید المثال ہے
اسکی ریاء سے بچنا سنبھلنا ضرور ہے
اسکا یہ وعدہ ہائے وفاء جال عنکبوت
پیچھے سے چھپ کے وار تو کرنا ضرور ہے
آنکھوں کا نور تھا جو کبھی آج وہ اشہر
دیدوں میں بن کے خار کھٹکتا ضرور ہے