دیر آنے میں بہت کر دی مگر آۓ تو ہو
واسطے میرے نویدِ صبح تم لاۓ تو ہو
اعترافِ جرُم تم کرتے نہیں تو نہ سہی
ذِکر سُن کر میری بربادی کا گبھراۓ تو ہو
بہہ گئے ہو وقت کی رو میں اگرچہ دُور تک
چاہے جیسے بھی ہو لیکن میرے ماں جاۓ تو ہو
جا چکے ہو تم ہماری زندگی سے دُور گو
ایک مدُت سے دِل و جاں پر مگر چھاۓ تو ہو
نہ ملے مجھ کو کڑی دوپہر میں بادل کوئی
جو بچاۓ دھوُپ سے وہ تم مِرے ساۓ تو ہو
سیکھ لی تم نے کہاں سے یوں دھڑکنے کی ادا
نام سن کر اُن کا اے دل تھوڑا شرمائے تو ہو
پھول لا پائے نہیں تو صرف کانٹے ہی سہی
کم سے کم میرے لئے تحفہ کوئی لائے تو ہو
غم نہیں سب کچھ لٹا کے آنکھ اب جا کر کھلی
زندگی کیا چیز ہے تم یہ سمجھ پائے تو ہو
قربتوں کو اک نہ اک دن رنگ تو لانا ہی تھا
بعد مدت کے سہی پر دل کو تم بھائے تو ہو
ہم نہ کہتے تھے کہ تم اچھی طرح سے سوچ لو
فیصلہ کر کے غلط اب دل میں پچھتائے تو ہو
ہے غنیمت مجھ کو عذراؔ یہ بے ہنگم شور بھی
گہری خاموشی میں آخر کوئی ہوُ ہاۓ تو ہو