دیکھ تو کتنی عجب ہے چاندنی
آج کیسی بے طرب ہے چاندنی
کچھ نہیں ،کچھ بھی نہیں ترے لئے
اور میرا سب کا سب ہے چاندنی
اس کے چہرے کی چمک کو دیکھ کر
آسماں پہ جاں بہ لب ہے چاندنی
آسماں کے راستوں سے لوٹ آ
اپنے آنگن میں بھی اب ہے چاندنی
آج تو جو آ گیا ہے لوٹ کر
آج اپنے گھر میں تب ہے چاندنی
اک ہنسی ،بس ایک پھیکی سی ہنسی
جس کا ادنا سا لقب ہے چاندنی
سو رہو تم ،کیا تمہیں کہ اپنے گھر
کب نہیں ہے،اور کب ہے چاندنی
تجھ کو ہی زیبا ہے کہنا چاند بھی
کہ تیرا نام و نسب ہے چاندنی
ہے مسبب وصل کے اسباب کی
فرقتوں کا بھی سبب ہے چاندنی
میں بھلا کیا جانتا ہوں چاند کو؟
مجھ کو تو تیرا ادب ہے چاندنی
کہہ رہی ہے تو بھی چاہے ہے مجھے
دیکھ تو کتنی عجب ہے چاندنی
عشق کی تخلیق کرتی ہے رضا
جذبہ الفت کی رب ہے چاندنی