میں نے آنکھوں میں اک طوفاں کو ابلتے دیکھا
پھر اسے دل کی وسعتوں میں بھی ڈھلتے دیکھا
موسموں کی طرح انسان تو بدل جاتے ہیں مگر
اب زمیں کی طرح آسماں کو بھی بدلتے دیکھا
سنا ہے دکھ میں اپنا سایہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے
یہ میں نے کس کو اپنے روبرو چلتے دیکھا
کون کہتا ہے کہ اب معجزے نہیں ہوتے
میں نے پتھر کو موم جیسا پگھلتے دیکھا
دل تو پہلو سے نکلنے کو تھا عظمٰی لیکن
ہم نے پھر دل کو ارادوں سے سنبھلتے دیکھا