نصیحتوں کا
آقوال زریں کا
ایک انبار
دیکھتا ھوں
جہاں صفائی لکھا ھے
وہاں گندگی کا ڈھیر
دیکھتا ھوں
وہ مجھ سے
پوچھتا ھے
میرے دل کا خال
بے خیالی میں
میں ادھر اُدھر
دیکھتا ھوں
اچھا ھوا کنارہ کیا
اس نے
اب اس کو خواب میں اکثر
دیکھتا ھوں
امید تھی جیت کی ہمیں بہت
جب ہار پڑی تو
اپنے اپ کو اکیلا
دیکھتا ھوں
تدبیر یں بہت کی
کچھ بنانے کی
بنایا تو بھت کچھ لیکن
ہاتھ پھر بھی خالی
دیکھتا ھوں
دھوکے اتنے ھوئے اپنے ساتھ
اب خود کو بھی دھوکا باز
دیکھتا ھوں
چاندنی بھی در پہ ائی جب
روشنی کو
اسکو بھی خشمگیں نگاہ سے
دیکھتا ھوں
کوئی تو ھوگا جو جان جایگا
راز میرا
پر اس کو میں کہاں سے
دیکھتا ھوں