دیکھیں ہیں میری آنکھہ نے سپنے کمال کے
پائوں نشان ِ سحر میں بعد از زوال کے
نظروں سے کررہا ہوں میں سیراب عقل کو
کھل جائے تا کہ ذہن میں غنچے خیال کے
پھیلاتا ہے جہاں میں یہ آداب ِ زندگی
صفحے کی وسعتوں کو سمیٹوں سنبھال کے
پاتے ہیں عاصیان ِ جہاں بھی فضائے خلد
دیکھو بہا کے تم بھی دو آنسوں ملال کے
گر غم ہیں تیری جاں کو، میری جاں صبر تو کر
ہوگی طلوع ِ سحر مگر شب نکال کے
پوچھا وفا؟ جواب دیا، ہاں! نہیں مگر
ممکن نہیں جواب تیرے ہر سوال کے
کب سے؟ کہاں ہے اور کہاں تک ہے وہ خدا؟
لاتا ہے پھر سے دن کو جو شب سے نکال کے
وہ ذات ِ حق تو ہے میری سوچوں سے ماورا
عاجز ہوں لکھ سکوں اسے لفظوں میں ڈھال کے
ساری انا تو اس کی وفا کی نظر ہوئی
احسن کے جس کے عام تھے چرچے جلال کے