دیکھے ہیں غزل نور ستارے حیران
اک چاند نہیں چاند ہیں سارے حیران
ٹکرا کے کہاں جاتی ہیں سب لہریں بھاگ
دریاؤں کے ہوتے ہیں کنارے حیران
امّید ہوا کی بھی کہیں ہے موجود
ہیں راکھ میں ہر لمحہ شرارے حیران
ہر بار تدبُّر سے بدل دیں حالات
ہوتے ہیں لگن دیکھ خسارے حیران
عاشی مجھے تھاما ہے جنوں نے ہر بار
ہوتے ہیں خرد مند سہارے حیران