ذہن پہ نقش تیری تصویر مٹا دوں گا
میں اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریر مٹا دوں گا
تمنا ہے کہ بہت دور تک جا پہنچوں
زندگی اور موت میں حائل لکیر مٹا دوں گا
آنسو دے گئے ہیں خواب آنکھوں کو
باعث درد ہو جو ایسی تعبیر مٹا دوں گا
قسمت کب تک فریب دے گی مجھ کو
اک نہ اک روز تو یہ تقدیر مٹادو گا
قید میں رہ کر آزادی کا درس دیتا ہوں
خود مٹ جاؤں گا یا زنجیر مٹا دوں گا
اندھیرا اب نہ رہے گا گھر میں مظہر
شب بے نور کو اے صبح تنویر مٹا دوں گا