رات بھر بے خواب رہا اور میں سویا نہیں
یاد میں تڑپا بہت لیکن یہ دِل رویا نہیں
آنکھوں میں رہی بہت گردِ ماضی کی چبھن
دھندلائی آنکھوں کو مگر اشکوں نے دھویا نہیں
رفتہ رفتہ مجھ پہ تنہائی محیط ہوتی گئی
میں سمجھتا ہی رہا میں نے کچھ کھویا نہیں
راز داری سے مجھے یہ میرا دِل کہنے لگا
شجر الفت کا تخم تم نے کہیں بویا نہیں
سچ کہو عظمٰی نگاہوں کا کوئی افسانچہ
ان کہے لفظوں میں تم نے بھی تو پرویا نہیں