رات بھر جاگتی تھیں آنکھیں وہ
جانے کیا دیکھتی تھیں آنکھیں وہ
کھوئی کھوئی سی وہ خلاؤں میں
اِک جہاں ڈھونڈتی تھیں آنکھیں وہ
مست و بے خود کیا مجھے جس نے
جامِ جم، جام سی تھیں آنکھیں وہ
ایک ہلچل مَچی رہی مجھ میں
ایسا کیا کر گئی تھیں آنکھیں وہ
داستاں تھی نہاں اُن آنکھوں میں
جستجو کر چکی تھیں آنکھیں وہ
حشر کیسا بپا رہا اُن میں
آخرش کیوں جھکی تھیں آنکھیں وہ
درد ہی درد تھا اُن آنکھوں میں
کربلا سہہ رہی تھیں آنکھیں وہ
آخری بار مجھ کو دیکھا تھا
پھر کبھی نا اٹھی تھیں آنکھیں وہ